Allama Iqbal poetry
"میں خود کو بھلا کیسے کہوں"
میں خود کو بھلا کیسے کہوں، ہمیں بھلا نہیں کہیں بھی
راز کہوں یہ گیا مرا نہیں، چھپا کہوں یہ مرا نہیں"تخلیقِ انساں
" خواب آفرینِ خلقتِ انساں، ہے کرامت والی
آئینہ دِل ہے، ذوقِ فنا کرنا ہے اس کو"خودی"
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے"اقبال کا ترانہ"
سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں، اس کی، یہ گلستاں ہمارا"خودی کو ہم نے بدل دیا رونقِ جہاں کی"
خودی کو ہم نے بدل دیا رونقِ جہاں کی
اب راتوں کی سگیاں میں بھی سحر کی طلب ہے"شکوہ"
کربلا کو جیئے کیا خونیں دل کے پیمانے؟
ہمیں ہیں جلوہ زیرِ پردۂ جنوں کہاں"شاہین کی محافل"
اربابِ وفا کا شیخ، اسلامی جہاں کا شیر
شاہین کی محافل ہوں، ربابِ وفا کے ساتھ
Comments
Post a Comment